Mchoudhary

Add To collaction

کبھی روگ نہ لگانا پیار کا (session1)بقلم ملیحہ چودھری

قسط 26

*************
" منہال !! "دا سپر سٹار فلم انڈسٹریز کے کنگ اب اس دنیا میں نہیں رہے وہ لاؤنج میں بیٹھی بار بار چننیل بدل رہی تھی۔" دل تھا کہ ایک خوف کی وجہ سے دھڑکنا بھول گیا تھا ۔۔ اسکو سانس نہیں آ رہا تھا۔۔ حد سے زیادہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ خوف بڑھتا ہی جا رہا تھا ۔۔ "ایسا لگ رہا تھا جسے کُچھ بہت بُرا ہونے والا ہے۔۔ ایک دم بن موسم کی موسم بدلہ آسمان میں گھنے کالے کالے سیاہ بادل نہ جانے کہاں سے ایک دم آئے تھے۔۔۔ وہ گرجنا شروع ہو گئے بجلی کی گرج اور چمک بہت بھیانک تھی۔۔۔ " اُس نے سر اٹھا کر باہر کے جانب دیکھا تھا۔۔۔ ایک بار پھر بجلی کڑکی اُسنے زور سے اپنی آنکھیں موندلیں۔۔ " یا الله !! " اپنا رحم فرما ، وہ دعا گو تھی۔۔۔ "کچھ تو بہت بُرا ہونے والا ہے ،اُسکے دل سے آواز آئی تھی۔۔وہ دل تھام کر بیٹھ گئی۔۔ اُسنے اَپنا دھیان اس جانب سے ہٹانے کے لئے پھر سے ٹی وی کے جانب چہرا کیا تھا۔۔ تبھی ایک نیوز اُسکے سامنے آئی۔۔ "السلام وعلیکم !! ناظرین آج کی بریکنگ نیوز کے ساتھ میں "رہنما شہید " " منہال سپر سٹار فلم انڈسٹریز کے کنگ اب اس دنیا میں نہیں رہے، کہہ جا رہا ہے کہ انکا بچنے کی کوئی امید نہیں ہے جبکہ ڈاکٹرز اپنی طرف سے پوری کوشش میں ہے، سب یہ ہی اندازہ لگا رہے ہیں کہ وہ اب بچ نہیں سکتے۔۔ "جس کی وجہ سے وطن بھر میں افرا تفری مچ گئی ہیں ۔۔ جو مائشا نے سنا اُسکے سننے کے بعد تو وہ اپنے حواس کھو بیٹھی تھی بے سدھ ہو کر وہ ٹی وی کو ہی گھور رہی تھی۔۔ اسکو کسی بھی چیز کا خیال نہیں تھا۔۔۔ آج اُسکا سب کچھ ہی تو ختم ہو گیا تھا ۔۔ آنکھیں پتھرا گئیں تھیں اور بغیر پلکیں جھپکائیں بسس ٹی وی کو ہی دیکھے جا رہی تھی۔۔۔۔ ایک بار پھر یہ دن اُسکے لیے آزمائش بن کر ماضی دوہرا رہا تھا۔۔ ہاں ایک بار پھر ماضی نے پلٹا کھایا تھا۔۔ " بس فرق اتنا ہے پہلے اُسکی کچھ سانس گئی تھی لیکن آج " آج جسم سے جان ہی نکال لی گئی تھی اُسکی۔۔۔۔۔ منہال ل ل ل ل ل ل .... !! وہ ایک دم چلّائی اور بیہوش ہو کر گرنے لگی تھی " جب کسی نے اسکو تھاما تھا "کون تھا وہ شخص ... ؟؟ 
*******************
مار ڈالو وہ ابھی کچھ اور بھی بولتی کسی نے انکا کندھا پکڑ کر اپنے جانب کیا اور ایک زور دار تھپڑ اُنکی آگے بولنے والے الفاظوں کو وہیں کا وہیں روک دیا تھا۔۔۔۔۔" انف..... !!! ایک اور الفاظ نہیں۔۔۔ کون تھا وہ شخص جس نے صائمہ بیگم کو تھپڑ مارا تھا۔۔۔۔ ؟ صائمہ بیگم نے چہرا اٹھا کر سامنے دیکھا گال پر ہاتھ ہونز رکھا ہوا تھا ۔۔۔ ملک شاہ انکو غصّے سے گھور رہے تھے۔۔۔ غصّہ اس قدر تھا کہ صائمہ بیگم کی آنکھیں ہی اُبل آئی تھی۔۔۔ "کیا کہا تُم نے ؟؟" تُم میرے بھائی کے بچوں کو ختم کرو گی تُم....؟؟؟" اتنا کیسے تُم گر سکتی ہو ؟؟ شرم آ رہی مجھے " میں میں پچھلے چالیس سال سے ایک دھوکہ باز عورت کے ساتھ زندگی کاٹ رہا تھا۔۔۔ ملک شاہ بہت تیز چلائے تھے۔۔۔اُنکی آواز اس قدر بلند تھی کہ سبھی حویلی کے فرد اُنکے روم میں اکھٹا ہو گئے تھے۔۔۔ ملک شاہ کو یوں صائمہ بیگم پر چلاتے دیکھا تو بی جان بولی تھی۔۔۔ "کیا ہوا ملک..؟ " صائمہ پر ایسے کیوں چلّا رہے ہو؟؟؟ سب ہی خاموش تھے ملک شاہ صائمہ کو خونخوار نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔" ملک کچھ پوچھا ہے..؟؟ اس بار بی جان تھوڑا زور سے بولی " بی جان پوچھے اس عورت سے پوچھے آخر کیا دشمنی ہے میرے بھائی سے اسکی جو یہ عورت اُسکی اولاد کو بھی بخش نہیں رہی۔۔۔" ک کیا مطلب ..؟؟ مہرین بیگم جو بہت دیر سے خاموش کھڑی دیکھ رہی تھی ۔۔۔ وہ اب لڑ کھڑا تی ہوئی بولی۔۔۔ ب بھائی ی یہ آپ کا کیا مطلب ہے۔۔؟؟؟ انکو مدیحہ نے تھاما تھا "آنٹی...؟؟ اور پھر انکو صوفے پر بٹھا کر پانی پلایا۔۔۔ شہزین کو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔" صائمہ یہ ملک کیا بول رہا ہے.؟ بی جان نے صائمہ کو دیکھا اور پھر پوچھا۔۔ صائمہ بیگم کا تو حال ہی بُرا تھا۔۔۔آج انکو اپنی زندگی ختم ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔۔ چہرے کا رنگ زرد پڑ چکا تھا۔۔۔۔ سانس لینا مشکل تھا۔۔۔ فون پر کال ابھی بھی چل رہی تھی۔۔۔ شاہزیب سب سن رہا تھا۔۔۔۔ " بابا آپ موم پر اتنا غصّہ کیوں ہو رہے ہیں..؟ سہزین نے اپنے بابا اور ماما کو دیکھتے پوچھا۔۔۔۔" بتاؤ انکو کیا کیا کرتی پھر رہی ہو تم..؟ "چپ کیوں ہو..؟؟ "صحیح !!! "ارے میں یہ کیسے بھول گیا کہ تعریف خود کے منہ سے کبھی اچھی نہیں لگتی " چلو ایک آخری بار میں ہی تمہاری تعریف کر دیتا ہوں وہ طنزیہ انداز میں بولے اور پھر بولے۔۔۔ " صائمہ ملک شاہ جو کہ بس کُچھ دیر تک ہی اس نام پر ہے۔۔ " وہ میرے بھائی کمال شاہ سے نفرت کرتی ہے۔۔ اس بات کو میری بہن جیسی بھابی بھی جانتی ہے "لیکن انہنوہے ابھی تک کسی کو نہیں بتایا۔۔۔ یہ صائمہ بیگم انکی نفرت اتنی شدید ہے کہ انھونے اپنے بیٹے شاہزیب سے کہا ہے کہ مائشا کو ڈھونڈ کر اسکو ختم کر ڈالو۔۔۔ یہ سننا تھا کہ مہرین بیگم جھٹکے سے کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔ اور پھر صائمہ کے جانب بڑھی۔۔" س صائمہ بیگم !!!! "اپنے ایسا سوچ بھی کیسے لیا..؟" آ آپ میری اولاد کو ختم کرو گی۔۔ سب دم سادھے کھڑے دیکھ رہے تھے۔۔۔ اتنے سال پورے انیس سال مجھے اپنی قید میں رکھ کر مجھ پر ظلم کے کے آپکی نفرت ختم نہیں ہوئی کہ اب میری اولاد کو بھی تُم ختم کرنے کے لیے چل دی۔۔۔" مہرین بیگم کا آج صبر جواب دے گیا تھا۔۔۔ ایک نیا انکشاف سن کر تو سب ہی اپنی جگہ سے ہل نہیں سکے تھے۔۔۔۔" میرے شوہر کو اپنے مروا دیا ،میں جب خاموش رہی مجھ پر اتنے دن میری اولاد سے دور رکھا میں خاموش رہی ، میری بیٹی جو صرف محض دو سال کی تھی اسکو بیچ سڑک کے پتہ نہیں کہاں چھوڑ دیا میں تب خاموش رہی، اس بات پر مدیحہ نے شہزین کے طرف دیکھا اور شہزین نے بھی اسکو دیکھ کر ناظریں چُرا لی تھی۔۔"اور تو اور میری بیٹی پر ظلم کرتی رہی یہاں کے سب خاموش رہے اور میں بھی" لیکن آج آج میں خاموش نہیں رہوں گی" آج میں حساب مانگتی ہوں آپ سے آخر کیا وجہ ہے جو اتنی نفرت آپ میری فیملی سے کرتی ہے۔۔۔۔ اب جب پتہ نہیں کہاں کس حال میں دونوں بیٹیاں ہو گی۔۔۔ ایک کا غم نہیں نکلا دل سے کہ ایک اور دینے کہا ارادہ کر ڈالا اپنے۔۔۔" صائمہ ملک شاہ میں آج تُم سے پوچھتی ہوں آخر کیوں آخر کیوں؟ اتنی نفرت دل میں لیے بیٹھی ھو تم "مہرین بیگم نے انکو کندھوں سے۔ تھامتے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔" ماما کیا یہ سچ ؟؟ شہزین نے اس بھری نظروں سے اپنی ماں کی طرف دیکھا اسکو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اُسکی ماں ایسا کچھ بھی کر سکتی ہے ۔۔ اتنی دیر سے خاموشی سے کھڑی صائمہ بیگم کے اب بس سے باہر تھا۔۔۔۔ اب جب سچائی نکل ہی آئی تھی تو اب خموش رہنا انکو گوارہ نہیں تھا۔۔۔ اُنہونے نے مہرین کو بہت زور سے دھکّا دیا جس سے مہرین بیگم گرتے گرتے بچی تھی۔۔ اگر انکو بر وقت نہ تھامتا۔۔۔۔ سب حیران نظروں سے دیکھ رہے تھےصائمہ کے جانب " صائمہ !!! ایک اور تپپڑ مارا تھا ملک شاہ نے۔۔ " اس بار صائمہ بیگم غصّے سے چلّائی" ہاں میں کرتی ہوں نفرت بہت نفرت کرتی ہوں۔ کمال سے اُسکی بیوی سے اور اُسکی اولاد سے میں کرتی ہوں بہت نفرت اور ہمیشہ کرتی رہوں گی سنا آپ لوگوں نے..." جب اب آپ سب کچھ جان ہی گئے ہے تو تھوڑا بہت جو باقی ہے اسکو بھی سُن لو" یہ چھپ چھپ کر وار کرنا میں بھی بہت تنگ آ گئی ہوں۔۔۔ تو سنو میں نے ہی اس گھر کی بڑی بیٹی مدیحہ کمال شاہ کو کسی کو پیسے دے کر بہت دور لے جانے کو کہا تھا ۔۔" جب میں کمال کو اٹھانے کے لئے گئی تھی اُس وقت میرے آدمی مدیحہ اور مہرین کو وہاں سے لے گئے تھے۔۔۔ میں نے مدیحہ کو روڈ پر چھوڑ دینے کو کہا تھا تاکہ اسکو کوئی کار ایکسیڈنٹ کر دیں اور سب کو لگے کہ وہ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے نے گئی ہے۔۔ اور مہرین کو میں نے پورے انیس سال اپنی ہی حویلی کے تہہ خانے میں رکھا "مجھے پتہ تھا وہاں کوئی نہیں جاتا اور پھر صفائی کی ذمےداری تو میری ہی تھی اس لئے میں بلکل پرسکون تھی۔ سب نے اسکو بہت ڈھونڈا بہت لیکن یہ کہیں نہیں ملی. صائمہ بیگم ہنستے ہوئے بولی۔۔۔ پھر نہ جانے اتنے سالوں بعد کمال کو کیسے پتہ چلا اسکا کہ یہ حویلی کے ہی اندر ہے۔۔۔ مجھے لگا اگر کمال یہاں پہنچ گیا تو وہ ایک منٹ بھی مجھے پولیس کے حویلی کیے بغیر نہیں رہے گا۔۔ اس لیے میں نے کسی کو پیسے دے کر کمال کو بھی اوپر پہنچا دیا تھا۔۔۔۔" وہ ایک بار پھر کہکا لگا کر ہنسی تھی۔۔۔ "سننا چاہتے ہو یہ سب میں نے کیوں کیا؟؟ اُس نے سب کے جانب دیکھا۔۔۔۔ میں کمال سے محبّت کرتی تھی یہ ایک دھچکا لگا تھا ملک شاہ کو وہ ایک دم دھے سی گئے تھے دل پر ہاتھ رکھا اور نیچے گرتے کہ عالیان نے انکو سہارا دیا.. سب نے دروازے کی طرف دیکھا جہاں اس گھر کے سر برّہ احسان شاہ (دادا جان) کھڑے تھے۔۔۔۔" بابا !!! "چاچو ....!!" ملک ... !! سب ایک ساتھ چلائے تھے۔۔۔ اور اُنکی جانب لپکے تھے ۔۔ ملک ملک آنکھیں کھولو بیٹا " یہ دادا جان کی آواز تھی۔۔۔" عالیان جلدی بیٹا ہاسپٹل لے کر چلو بابا کو دادا جان نے عالیان سے کہا.. عالیان اور شہزین دونوں نے مل کر ملک شاہ کو سہارا دیا اور انکو گاڑی ٹک لئے جب تک ڈرائیور گاڑی نکال چکا تھا۔۔۔اور ریش ڈرائیونگ سے وہ لوگ ہسپتال پہنچے تھے۔۔۔ ایک قیامت تھی جو تین تین جگہ ایک ساتھ ٹوٹی تھی۔۔۔۔ 
*******************
گاڑی کی ٹکر درخت میں لگنے کی وجہ سے گاڑی کا گیٹ کھلا تھا اور منہال دور جا کر گرا پھر اس گاڑی کے اگلے حصّے سے دھواں نکلنا شروع ہوا تھا تھوڑی دیر بعد اُس گاڑی میں آگ لگ گئی تھی۔۔۔ وہاں لوگوں کی بھیڑ تھی بہت کوئی بھی آگے نہیں آ رہا تھا۔ ایک لڑکی بھیڑ کو چیرتی ہوئی آئی.. اُس نے کئی لوگوں سے پوچھا" کہ کیا ہوا؟؟ لیکن سب نے کندھے اچکا کر بول دیا کہ ہمیں کیا پتہ۔۔؟ پھر اُس لڑکی کی نظر سامنے پڑے شخص پر گئی تھی۔۔۔ وہ آگے بڑھی اور اُس شخص کا چہرا اپنے جانب کیا۔۔" منہال !!! وہ شاکڈ تھی۔۔ کیا کیا نہیں یاد آیا تھا اُس لڑکی کو ایک ایک لمحہ فلم بن کر اُسکے سامنے ٹی وی سکرین بن گیا تھا آنکھوں میں آنسوں بے شمار اُمڑ آئے تھے۔۔۔ منہال !!! ک کیا ہوا تمہیں ا آنکھیں کہ کھولو پلز دیکھو نہ م میں تمہیں آواز دے رہی ہوں" پلذّز ایسے نہیں جا سکتے تُم وہ بہت بری طرح رو رہی تھی۔۔۔ اسکو مستقل روتے ہوئے دس منٹ سے زیادہ ہو گئے تھے۔۔اسکو یوں چھ سال بعد اپنے آنکھوں کہ سامنے دیکھ کر وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو چکی تھی۔۔۔ آخر کیا تھا اس لڑکی سے منہال کا رشتہ کیوں وہ رو رہی تھی۔۔؟ "کیا ہوا بیٹا..؟؟ ایک بزرگ نے آگے بڑھ کر پیچھے سے اُس لڑکی کا کندھا ہلایا اُسنے اُسنے پلٹ کر دیکھا۔۔" دیکھو نہ بابا ک کتنا خون بہ رہا ہیں انکا وہ روتے ہوئے بولی۔۔ بیٹا فکر نہ کرو اللہ سب ٹھیک کر دیگا انشاءاللہ !!! بزرگ نے اسکو تسلّی دی اور پھر لوگوں کی مدد سے منہال کو ہاسپٹل پہنچا دیا۔۔ اُس لڑکی کو صرفان کا ہاسپٹل کا پتہ تھا تو وہ اسکو وہیں لے کر آ گئی۔۔۔ انکو آئے ابھی دس منٹ بھی نہیں ہوئے تھے۔۔۔ جب کسی ڈاکٹرز نے سرفان کو منہال کے ایڈمٹ ہونے کی انفارمیشن دی تھی۔۔کیونکہ سب ہی منہال کو بہت اچھے سے جانتے تھے۔
وہ بھاگتا ہوا ادھر ہی آیا تھا سانسیں پھول رہی تھی حلیہ بے ترتیب تھا۔۔ وہ ڈاکٹرز سے منہال کی کنڈیشن کے بارے میں کسی ڈاکٹرز سے پوچھ گچھ کر رہا تھا جب اُسکی نظر کھڑکی کے جانب ایک بڑی سی چادر میں لپٹی ایک لڑکی پر گئی۔۔ اُس نے ڈاکٹر سے اس لڑکی کے بارے میں پوچھا " یہ لڑکی کون ہے؟؟ ڈاکٹرز نے ایک نظر لڑکی کو دیکھا اور پھر بولا" سر یہ لڑکی ہی ہے جو سر کو ہاسپٹل لائی ہے۔۔ اوکے آپ جاؤ میں آتا ہوں ۔" صرفان نے ڈاکٹرز سے کہا اور اس لڑکی کہ شکریہ ادا کرنے کے لئے اُسکے جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
"ایکسکیوز می؟؟؟ اُسنے وہاں جا کر اسکو مخاطب کیا۔۔ وہ لڑکی آواز کو پہچاننے کی کوشش کرتی پلٹی ہی تھی۔۔۔۔ سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ دونوں ایک ساتھ بولے تھے۔ 
"تُممم ......!!!!جہاں ایک کا چہرا اُسکی دیکھ کر ہلکا سا زخمی سے مسکرایا تھا تو دوسرے کا غصے کی وجہ سے بُرا حال تھا۔۔
"کون تھی وہ لڑکی ؟؟؟جس کو دیکھ کر صرفان کو غصّہ آ رہا تھا۔۔۔۔۔
*********************
اُس نے مائشا کو باہوں میں بھرا اور آؤ دیکھا نہ تاؤ باہر کو دوڑ لگا دی ۔۔" اسکو جو بھی دماغ میں آیا اُس اور عمل کرتے ایک بڑے ہاسپٹل کے سامنے کار روکی تھی اس ایک بار پھر اسکو اٹھائے وہ اندر کے جانب بھاگا۔۔۔ "ڈاکٹرز ڈاکٹرز !!!! وہ چلّایا تھا اندر آ کر سب ہی اُسکے ارد گرد کھڑے ہو گئے تھے۔۔ "ایسے میرا چہرے کیوں دیکھ رہے ہو...؟ میں یہاں تم سب کو اپنے چہرے کا ملاحظہ نہیں کرانے آیا.." دکھائی نہیں دیتا آپ سب کو کہ ایک مریض کو میں لیے کھڑا ہوں اور آپ سب مجھے دیکھ رہے ہیں جیسے میں یہاں علاج کرانے نہیں بلکہ اپنا تعارف کرانے آیا ہوں وہ غصے سے چلّایا۔۔ غصّہ اس قدر تھا کہ سب ہی سہم گئے جلدی سے سٹریچر کو لایا گیا مائشا کو اُس پر لٹا کر ایمرجنسی روم میں لیے جایا گیا تھا۔۔ اور اُسکا علاج شروع کر دیا گیا۔۔۔ 
***********************
(J.R.S.H)
جہانگیر راجپوت سرجن ہاسپٹل یہ ہاسپٹل ایک بہت بڑے رقبے پر پھیلا ہوا تھا کئی بلڈنگ تھی اس ہسپتال میں جو الگ الگ حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔۔ ہر بیماری کا الگ ڈیپارٹمنٹ تھا۔ بڑے بڑے ڈاکٹرز اس ہاسپٹل میں تھے۔۔ بڑے بڑے پہنچے ہوئے ڈاکٹرز تھے۔۔۔ ایمرجنسی وارڈ الگ تھا جہاں آپریشن ہوتا وہ بلڈنگ الگ تھی یعنی جو ایک مشہور اور بڑے ہسپتال کو چاہئے ہوتا ہے وہ سب کچھ اس ہسپتال میں تھا تبھی تو یہ ممبئی کا سب سے بڑا ہسپتال تھا ۔۔ ملک شاہ کو شوگر تھا تو انکو الگ بلڈنگ میں ایڈمٹ کیا گیا تھا۔۔۔ تین گھنٹے ہو گئے تھے ابھی تک انکو ہوش نہیں آیا تھا۔۔حالات بہت نازک تھی انکو یہ تیسرا ہارٹ اٹیک تھا۔۔ ڈاکٹرز ایک فوج لگی تھی۔۔ لیکن ابھی کچھ بھی نہیں پتہ چلا بسس ڈاکٹرز یہ بولتا گوڈ سے دعا کرو اب وہیں کر سکتا ہے جو بھی کر سکتا ہے۔۔۔ تین وجود ایک ہی گھر کے فرد ہو کر ایک دوسرے سے لاتعلق ہوئے ایک ہی جگہ زندگی اور موت میں جھول رہے تھے اور کسی کو خبر ٹک نہیں تھی۔۔" کیا یہ تینوں بچ پائے گے..؟ یا اپنی منزل کا آخری سفر طے کرے گے۔۔؟ یہ تو صرف وہ پاک ذات ہی جانتی تھی۔۔۔
*

************************
تین گھنٹے سے زیادہ ہو گئے تھے ان تینوں کو ایڈمٹ ہوئے لیکن کہ تسلّی کے ایک لفظ بھی ابھی ٹک سننے کو نہیں ملے تھے کسی کو بھی ۔۔۔ صرفان نے اپنی پھپپوں اور اپنے انکل یعنی سلمان شاہ کو لندن کال کر دی تھی۔ عائشہ بیگم جو یہیں تھی وہ تبھی جہانگیر اپنے بھائی کے ساتھ ہسپتال آ گئی تھی۔۔ جب سے ہاسپٹل آئی تھی بہت رو رہی تھی وہ اللہ کے بارگاہ میں حاضر تھی اور اپنے بیٹے کے لئے دعا کر رہی تھی۔۔۔ اُدھر ملک شاہ کے حالت بہت نازک تھی۔۔۔ صائمہ بیگم ڈرائیور کے ساتھ ہسپتال آئی تھی اور روم میں پڑے ملک شاہ کی وجود کو دیکھ کر رویے جا رہی تھی۔۔۔ روتی بھی کیوں نہ آج جو حالات انکی تھی اُسکی ذمے دار تو صرف وہی تھی۔۔انکو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔۔ وہ معافی منگنی چاہتی تھی سب سے اور ملک شاہ سے اپنی بیوفائی کی معافی منگنی چاہتی تھی۔۔لیکن کیسے مانگتی کوئی اُنکی شکل ٹک دیکھنے کا راودر جو نہیں تھا۔۔۔ وہ ایک طرف بیٹھی رو رہی تھی۔۔ اور عالیان نفرت بھری نظروں سے اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ جب اُسکی برداشت جواب دے گئی تو وہ غصے سے اُنکی جانب بڑھا وہاں پہنچ کر چلّایا تھا۔۔ " اب یہ ٹسوے بہ کر آپ کیا ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ آپکو انکی فکر ہے۔۔ ہاں اپنے ایک نہیں بلکہ کمال چاچو کی پوری فیملی کی گناہ گار ہے بابا کی اور ہم سب کی گناہ گار ہے آپ مجھے تو شرم آتی ہے آپکو ماں بولتے ہوئے بھی۔۔ "میں روگ صرف یہ سوچتا تھا کہ آپ مائشا سے نفرت اس لیے کرتی ہے کیونکہ وہ بغیر ماں باپ کی بچی تھی۔۔۔لیکن نہیں مجھے نہیں پتہ تھا جس کو میں ماں بولتا ہوں اور وہ بیچاری کو مجھے ہمیشہ کہتی تھی عالیان مجھے تائی امی میں ماما نظر آتی ہے میں انکا لمس محسوس کرنا چاہتی ہوں ایک خوشبوں مجھے اُنکے جانب کھینچتی ہے۔۔ اسکو کیا پتہ جس تائی امّی کا وہ لمس محسوس کرنا چاہتی تھی وہ اُسکے باپ کی قاتل ہے۔۔۔ وہ اپنی آنکھوں سے آنسوؤں کو نے دردی سے صاف کرتا اپنی ماں سے بول رہا تھا۔۔ وہ بیٹھے ھر شخص کی آنکھ اشک بار تھی۔۔۔ بتا رہا ہوں اگر میرے بابا کو کچھ بھی ہوا نہ تو پھر میں آپکو کبھی معاف نہیں کروں گا۔۔۔ اُسکی بات پر صائمہ بیگم تڑپ ہی تو گئی تھی۔۔ " ب بیٹا... !! مت بولے مجھے بیٹا مر گیا ہوں میں آپکے لئے۔۔ " آج سے میرا اور آپکا کوئی رشتہ نہیں ہے ختم ہو گیا میرا اور آپکا رشتہ وہ یہ بول کر وحت سے چلا گیا تھا۔۔ اُسکے پیچھے پیچھے شہزین بھی لپکا سب منہ موڑ کر صائمہ سے آج محسوس ہوا تھا صائمہ بیگم کو "کہ اپنوں کی بے رخی کیا ہوتی ہے۔۔؟؟ وہ بس آنسوں ہی بہ سکتی تھی۔۔۔ ڈاکٹرز باہر نکلی zm جلدی سے اُنکی طرف لپکا ۔ "و وہ ٹھیک تو ہے؟؟ وہ اس بھری نظروں سے انکو دیکھ رہا تھا۔۔" آپکا تعارف ؟ ڈاکٹرز نے اُس سے پوچھا وہ تھوڑی دیر خاموش رہا اور پھر بولا۔۔ " میں ذیشان مجتبٰی ہوں " انکا رشتے دار پلس دوست !! وہ بول کر اب ڈاکٹرز کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ جی جی دیکھیے آپکی دوست کی حالات بہت نازک ہے اور جس کنڈیشن میں وہ ہے ہمیں ابھی کہ ابھی انکا آپریشن کرنا ہوگا ۔۔۔ اور ایک اور بات انکا یہ لاسٹ آپریٹ ہوگا " کیونکہ دو بار رپورٹ کے مطابق انکا آپریشن ہوا ہے۔۔۔ کو کہ باڈی کے الگ الگ حصوں پر ہوا ہے۔۔ اور ہمیں افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم یا تو بے بی کو بچا سکتے ہیں یا ماں کو ۔۔" اور ہاں میں آپکو ایک فارم دوں گی آپکو اُس پر اپنے دستخط کرنے ہوگے "کیونکہ ہماری کوئی رسپونسیبلٹی نہیں ہے !!! ڈاکٹر بول کر وہاں سے چلی گئی تھی۔۔ وہ آنکھوں میں آنسوں لیے دروازے کو دیکھ رہا تھا۔۔ 
اُسکے کانوں میں مائشا کی آواز گونجی۔۔
"دوست اگر تمہاری کوئی بھی بہت خاص چیز گم ہو جانے کا تمہیں کبھی خوف ہو تو اس رب سے وہ چیز مانگ لینا " دیکھنا کیسے وہ تمہیں بہت جلد وہ چیز عطا کردیگا،وہ اپنے بندے کو آزما کر دیکھتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ دیکھیں اُسکا بندہ ایسی گھڑی میں اُس سے رجوع کرتا ہے یا مایوس ہو کر ایک جانب بیٹھ جاتا ہے، مایوسی کُفر ہوتی ہے جو ہمیں جہنّم کا ایندھن بناتی ہے پل نہیں لگتا ہمارے نیک اعمال کو وہ کب برے اعمال میں تبدیل کر دیتی ہے۔۔ دوست وہ اکثر اسکو دوست بول کر پُکارتی تھی۔۔ اور وہ اُسکے جانب دیکھتا کیونکہ اُسکا دوست بولنا اُسکی سکون بخشتا تھا ۔۔ " ایک بات بولوں ؟؟ وہ اجازت مانگتی اور اُسنے گردن ہلا دی۔۔ " آپکو پتہ ہے صبر جمیل کیا ہے ؟؟ اُسنے پوچھا تھا۔۔ " اچھا میں بتا دیتی ہوں !! پھر وہ بولی " صبر جمیل وہ ہے جب آپ آزمائے جا رہے ہو اور تمہارا دل کہہ رہا ہے شکر الحمدللہ رب اللہ ربّ العالمین اپنے فرشتوں سے کہتا ہے دیکھو میرا بندہ کتنا صابر ہے۔۔ جاؤ اسکی ہر پریشانی کو میری حکم سے دور کر دو !! اور پھر وہ چیز اللہ تعالی دیتا ہے اپنے بندے کو کہ اُسکے بعد اُسکا بندہ اپنے رب کی جیتنا چاہے شکر ادا کر لیں لیکن وہ بھی بندے کو کم لگنے لگتا ہے۔۔ لیکن میرا رب وہ بسس مسکراتا اور کہتا ہے میرے بندے تُو یوں اپنا ایمان کامل رکھ میں تُجھے اس سے بھی زیادہ نواز دوں گا۔۔۔" سر !! کسی نے اُسکو پُکارا۔۔ اُس آواز کو کسی کی آواز نے دبائی تھی۔۔۔ وہ چونکتا ہوا پیچھے پلٹا تھا۔۔۔
"جی !!!!
وہاں ایک فائل پکڑے لیڈی ڈاکٹر کھڑی تھی۔۔۔ "کیا آپ اُس مریض کے رشتے دار ہے؟ اُس لیڈی ڈاکٹر نے روم کی طرف اشارہ کرتے پوچھا۔۔۔ 
" وہ صاف گوئی سے جواب دیا۔۔
" نہیں میں رشتےدار نہیں ہوں ، وہ رُکا اور پھر بولا "میں انکا دوست ہوں...
Ohhhhhhh......
"پھر انکے شوہر کہاں ہے ..؟ اُس لیڈی ڈاکٹر نے ادھر اُدھر نظریں دوڑاتے پوچھا جیسے اُسکی شوہر کو تلاش کر رہی ہو۔۔۔
" Sorry but he's not here..
معذرت لیکن وہ یہاں نہیں ہے
"لیکن سر !!! وہ کچھ بولتی zm بول پڑا "دیکھیے اُنکی حالات بہت کریٹیکل ہے " اس وقت انکو آپ لوگوں کی بہت ضرورت ہے سو پلز سوال جواب میں وقت برباد نہ کریں، وہ تھوڑی سردمہری سے بولا۔۔ یہ اُس لیڈی ڈاکٹر کو محسوس ہوا تھا۔۔۔ " آپ وہ بتائے جس کام کو مجھے کرنا تھا۔۔ " zm جسکے حکم پر سب چلتے تھے آج وہیں شخص ایک کی محبّت میں اس قدر بدل گیا تھا کہ اب وہ صرف اُس لڑکی کی خوشی جان کے لئے کچھ بھی کے سکتا تھا۔۔۔" کیا محبّت میں انسان اتنا بدل جاتا ہے؟؟؟ "کیا محبت ایک روگ ہوتی ہے؟؟ اگر محبّت ایک روگ ہوتی ہے تو بسس اللّٰہ سے یہ دعا ہے اے میرے اللہ دنیا کی محبّت کو چھوڑ کر تُو ہم سب کو اپنی محبّت عطا کر دیں آمین ثم آمین !!! اُس ڈاکٹر نے ایک فائل اُسکے جانب بڑھائی جس کو اُسنے تھام کر اُس پر اپنے دستخط کر دیے۔۔ دل ایک دم بےچین ہوا تھا، گھبراہٹ بڑھنے لگی اُس نے دستخط کر کے اپنے قدم ایک مقدّس راستے کے جانب بڑھا دیے۔۔ جس راستے کو وہ کبھی دیکھنا تو دور اُسکے اس پاس سے نکلنا بھی گوارہ نہیں کرتا تھا آج وہ خود چل کر اُس راستے کے جانب جا رہا تھا۔۔۔ یہ محبّت ہی تو تھی" بلکہ عشق کہنا زیادہ بہتر تھا۔۔ !!! آج وہ اپنے رب کی جانب قدم بڑھا رہا تھا۔۔۔۔ ہاں وہ آج کئی سالوں بعد مسجد کے جانب جا رہا تھا۔۔۔ مائشا کی تو مانو دل کی مراد پوری ہو رہی تھی جس کا وہ پچھلے کئی مہینوں سے کوشش میں تھی۔۔۔۔
ہاں آج مائشا منہال شاہ اپنی ایک کوشش میں سر خور ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
***********************
وہ مسجد آیا تھا جیسے ہی اُسنے مسجد یعنی اللّٰہ کے گھر میں اپنا پہلا قدم رکھا وہ لڑ کھڑایا " ایک بزرگ نے اسکو تھاما تھا۔۔۔ وہ تھينک یو بول کر آگے بڑھ گیا۔۔ اُسنے جیسے ہی دوسرا قدم بڑھایا تو وہ کانپ اٹھا تھا پورے وجود میں خوف کی ایک لہر اٹھی تھی۔۔ اُسنے پیچھے مڑ کر دیکھا وہ بزرگ اسکو ہی دیکھ رہا تھا ۔۔ پھر مسکراتے ہوئے اُسکی طرف آئے بولے "آؤ بیٹا کیوں اتنے گھبرا رہے ہو؟؟ یہ اُس مالک کا گھر ہے جو اپنے بندوں سے بے پناہ محبّت کرتا ہے"یہ گھر بہت پاک ہے یہاں کسی کو چھوٹا بڑا ، امیر غریب ، گناہ گار یا پھر پاک کو نہیں دیکھا جاتا یہاں آکر سب ایک جیسے ہیں" اگر کوئی گناہ گار ہے تو وہ سوہنا رب اپنے بندے کی ہر گناہ صرف ایک آنسوں کے قطرے سے معاف کر دیتا ہے کیونکہ وہ معاف کرنے والا ہے یہاں انسان کی شخصیت کُچّھ نہیں ہے۔۔ "پھر ڈر کس بات کا بیٹا؟؟ ہے جھجھک ہو کر اپنے قدم اٹھاو اور اللہ سے معافی مانگ لو... وہ بزرگ اب اسکو سمجھا رہا تھا۔۔ اُنکی باتوں سے اسکو تھوڑا سکون ملا اور خود میں ہمت مجتمع کرتے اندر چلا گیا ۔۔۔۔
اُسنے پہلے وضو کی ، کیونکہ مائشا نے اسکو وضو پہلے ہی سیکھا دی تھی۔۔۔ اور پھر نماز کی نیت باندھ کر کھڑا ہو گیا ۔۔کُچّھ صورتیں تھی جو مائشا نے اسکو یاد کرائی تھی۔۔ لیکن اُسنے اتنا سب کُچّھ سیکھنے کے بعد بھی نماز ادا نہیں کی تھی۔۔۔
وہ جیسے جیسے نماز پڑھتا جا رہا تھا اُسکی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بن کر ٹوٹ رہی تھی اور مسلّے پر گر جاتے۔۔۔ 
وہ رُکوع میں گیا بہت رویا ،سجدے میں گیا تو اُسکی ھڑکی بندھ گئی تھی۔۔۔۔
اُسنے بمشکل سلام پھیر کر اپنے آنسوں سے لبا لب پلکیں اٹھائی تو اپنے برابر میں اُن بزرگ کو بیٹھا پایا تھا۔۔۔
وہ دعا مانگنے کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور دعا مانگنے لگا۔۔
"اے اللہ !!! میرے مولا م میں بہت گناہ گار ہوں۔
تیری نافرمانیوں میں، میں نے ساری زندگی صرف کردی۔۔
تیرے احکاموں کو ماننے سے میں نے انکاری کی، ایک بار کو وہ لوگ بھی تُجھ پر یقین رکھتے ہیں جو غیر مسلم ہے۔۔۔
لیکن میں ، میں تو فرعون سے بھی بدتر ہوں شائد شائد میری گناہوں کی تو آپ کے پاس معافی بھی نہیں ہے ، کیونکہ میں ہوں ہی اتنا گناہ گار !!! وہ زارو قطار تو رہا تھا ۔۔ دل تھا کہ بس فٹنے کو تھا۔
میرے مولا تُو میرے دل کے حال سے واقف ہے میرے ماضی سے واقف ہے ہر اُس چیز سے واقف ہے جسکو میں بھی نہیں جانتا ایک عمر میں نے گناہوں میں ختم کی ہے۔۔ میرے اللّٰہ میں تو تیرا نام بھی سننے کا راؤدار نہیں تھا۔۔۔ "لیکن اس لڑکی نے میری زندگی کو اُس اندھیرے سے نکلا ہے جس میں، میں بچپن سے لے کر اب تک ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔ وہ دعا کرتے کرتے رو رہا تھا۔۔۔۔۔ اللّٰہ جی میری ہے خطا کو معاف کر دیں مائشا کو اور اُسکے بے بی کی جان کو سلامت رکھے ۔۔ یا اللہ میں آج تیرے در پر بیٹھا تُجھ سے مانگ رہا ہوں اُسکی حفاظت کر میرے اللّٰہ۔۔ میرے یقین کو بنائے رکھ مولا یہ یقین نہیں ٹوٹنے دینا بے شک تو رحیم ہے رحم کرنے والا۔۔۔آمین !! اُسنے چہرے پر حات پھیر کر جیسے برابر میں دیکھا وہ بزرگ ابھی بھی ایسے ہی بیٹھے اسکو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔ اُس نے ان کو اپنے جانب دیکھتا پایا تو پوچھے بغیر نہیں رہ سکا " بابا آپ مجھے یوں اتنے غور سے کیوں دیکھ رہے ہیں؟؟" بیٹا کیا آپ مجھے وہ سب کچھ بتا سکتے ہو جس کی وجہ سے آج آپ اتنے شرمندہ ہیں اللہ کے سامنے۔۔۔ یہ اچانک کیا گیا سوال zm کو پریشان کے گیا تھا ۔۔ وہ تلخ یادیں جو اسکو پچھلے انیس سالوں سے پریشان کے رہی تھی وہ اُسکی آنکھوں میں سامنے پھر سے چلنے لگی ایک آنسوؤں ٹوٹ کر اُسکی ہتھیلی پر گرا تھا۔۔۔ آج وہ باتیں۔ دہرانے کا وقت آ گیا تھا۔۔۔۔ اُسنے بہت ہی آہستہ آواز میں بتانا شروع کیا تھا۔۔۔۔
************************
ماضی انیس سال پہلے»»»»»
بہت بڑے رقبے پر پھیلا یہ محل اپنی خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔۔ سنگِ مرمر سے بنا یہ خوبصورت محل جس میں صرف کچھ ہی لوگ رہائش پذیر تھے۔۔۔۔
مجتبٰی اُنکی زوجہ محترمہ ایمان اور ایک مہینے کی چھوٹی بیٹی رامین مجتبٰی اور سات سالہ ذیشان مجتبٰی رہتے تھے اس محل میں۔۔۔ یہاں گھر کے فرد کم ملازموں کی ایک فوج تھی۔۔۔ مجتبٰی رحمان ایک بہت بڑے ذہین بز نس مین تھے۔۔۔ کئی ملکوں میں اُنکی کمپنی کی شاخائیں پھیلی ہوئی تھی۔۔۔ جو انڈیا میں بزنس تھا یہ کمپنی میں ایک اور شخص یعنی اُنکے دوست ہادی کا شیئر تھا۔۔۔ دونوں کا حصہ ففٹی ففٹی کا تھا۔۔۔ سب بہت اچھے سے چل رہا تھا۔۔۔ اللّٰہ کا کرم تھا۔۔۔۔ ہادی اور مجتبٰی رحمان نے مل کر اپنے بز نس کو خوب اونچائی پر پہنچایا تھا۔۔۔ پھر جب بزنس نے ترقّی ہونے لگی تو ہادی مجتبٰی اتفاق سے ہادی میں بابا کا نام بھی مجتبٰی ہی تھا۔۔۔ اُن کو بزنس کے حوالے سے بےایمانی کرنے لگے کچھ دونوں سے مجتبٰی رحمان کی طبیعت خراب چل رہی تھی تو اپنے بزنس کو وقت نہیں دے پا رہے تھے۔۔۔ ہادی صاحب کے دو بچے تھے تین سالہ بیٹا اور چھ مہینے کی جیا۔۔۔۔۔
ہادی صاحب نے اُنکے بیمار ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انکو بزنس میں لوث دیکھانا شروع کر دیا دھیرے دھیرے اتنا لوث دکھایا کہ اپنی اس نام سے الگ جگہ یہ ہی برانچ کھول کر انکا شیئر ختم کر دیا اور انکو کہا کہ بزنس میں لوث کی وجہ سے ٹھپ ہو گیا ہے ۔۔۔ جب مجتبٰی رحمان نے ان سے لوث کی وجہ پوچھے تو اُنہونے کہا کہ بز نس ہے لوث تو ہوتا ہی ہے۔۔۔۔ مجتبٰی رحمان نے ایک بار پھر پوچھا تو وہ بھڑک ہی اٹھے تھے۔۔ " نہیں تُم کہنا کیا چاہتے ہو کہ میں نے اپنا نیا بزنس کھول لیا ہے !! مطلب کی میں بےایمان ہوں !! "ہادی میں نے ایسا کُچّھ بھی نہیں کہا مجتبٰی صاحب آہستہ سے بولے۔۔" نہیں تمہارا مطلب یہ ہے ہے... کہ میں بےایمان ہوں۔۔۔ اور یوں ہی بہت بار اُنکی اس ٹاپک پر لڑائی ہوئی تھی۔۔۔دھیرے دھیرے اُنکی دوستی دشمنی میں بدل گئی۔۔۔ لیکن یہ دشمنی صرف اور صرف ہادی صاحب کی طرف سے تھی۔۔۔۔ مجتبٰی رحمان تو ابھی بھی انکو اپنا دوست ہی سمجھتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے سائے گہرے ہو رہے تھے مغرب اور عشا کا درمیانی وقت تھا ۔۔۔ ذیشان رامین کے ساتھ کھیل رہا تھا۔۔۔رامین اپنے بے بی جھولے میں لیتی اٹھکیلیاں کر رہی تھی اور سات سالہ ذیشان اسکو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔۔۔۔ چیئر پر بیٹھے مجتبٰی اور اُنکی بیوی ایمان اپنے بچوں کو دیکھ کر ہنس رہی تھی۔۔۔۔ تبھی باہر سے فائرنگ کی آواز آئی۔۔۔ اور پھر وہ ایک سیکنڈ میں خاموش بھی ہو گئی تھی۔۔۔ مجتبٰی جلدی سے اٹھے جہاں سے فائرنگ کی آواز آئی تھی اُدھر کی جانب بھاگے تھے۔۔۔ سامنے دونوں گیٹ کیپر لاش بنے خون سے لت پت پڑے تھے۔۔۔۔۔ ایمان بھی انکے پیچھے پیچھے آئی تھی ۔۔۔۔ "مجتبٰی یہ یہ کیا ہوا...؟ وہ بوخلاتی ہوئی اپنے شوہر سے پوچھ رہی تھی۔۔۔۔ وہ ابھی کچھ بولتے جب ایک کالی بڑی گاڑی گیٹ کے سامنے رکی تھی۔۔۔ پہلے گاڑی سے کچھ ہٹے کٹے کالے کالے تین باڈی گارڈ نکل کر باہر آئے اُنکے حات میں رائفیل تھی۔۔۔۔
پھر ڈرائیور نے گیٹ کھلا اور وہاں سے ہادی مجتبٰی بڑی شان و شوکت کے ساتھ نکلا تھا۔۔۔۔ ہادی کو دیکھ کر مجتبٰی کو بہت خوشی ہوئی وہ اُسکی جانب بڑھا ہی تھا جب ہادی میں اسکو ہاتھ کے اشارے سے روکا اور پھر بولا۔۔۔۔ " تمہارا سارا بزنس جو یہاں اور باہر ملکوں میں ہے وہ سارا میرے نام کر دو..." اگر ایسا نہیں کیا تو ؟؟ اُسنے اپنے گارڈ کو اشارہ کیا تھا۔۔گارڈ اشارہ سمجھ کر ذیشان کے پاس آئے تھے۔۔ اور اسکو پکڑ کر اُسکے ماتھے لت گن تان لی۔۔۔۔ ذیشان ایمان بیگم چلّائی !!!! پاپا !!! وہ بھی بہت زور سے چلّایا تھا۔۔ چھوٹا سا وہ بچہ گن کو دیکھ کر بہت گھبرا گیا تھا۔۔۔ "دیکھو ہادی تمہیں جو چاہئے وہ میں دینے کے لئے تیار ہوں میرے بیوی بچوں کو کچھ نہیں کرنا ، مجتبٰی نے اپنے بیٹے پر تنتی بندوق کو دیکھ کر کہا اور پھر بولے" لاؤ میں کر دیتا ہوں دستخط ، ہادی صاحب نے ایک فائل اُسکی طرف بڑھائی تھی جسکو مجتبٰی نے کانپتے ہاتھوں سے پکڑا تھا۔۔۔ اور پھر اپنی پراپرٹی اپنا سارا بزنس ہادی مجتبٰی کے نام کر دیا تھا۔۔۔ ذیشان نے یہ سب چھوٹی سی عمر میں دھوکہ ہوتا دیکھا تھا اُس وقت اُسکا انسانیت سے ہی یقین آٹھ چلا تھا۔۔۔۔ مجتبٰی نے اپنی ننھی گڑیاں کو گود میں اٹھا کر اپنے چھوٹے سے بیٹے کا ہاتھ تھاما تھا اور اپنی بیوی کو چلنے کہا اشارہ کیا تھا۔۔۔ وہ جیسے ہی آگے بڑھے تھے کہ ہادی کی بہت ہی بھیانک ہنسی سنائی دی تھی۔۔۔ اُن تینوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔" تُجھے کیا لگتا ہے میں یہاں سے ایسے ہی جانے دوں گا "ہاں !! اتنا بیوقوف دکھتا ہوں میں تُجھے۔۔۔ نہ نہ ابھی تو ایک چیز اور رہتی ہے وہ چلتا ہوا ایمان کی طرف آیا ایمان اُسکی نظروں سے گھبراتی مجتبٰی کے پیچھے چھپنے لگی تھی۔۔" نہیں !! مجتبٰی اُسکی بات کا مطلب سمجھتے ہی دھاڑا تھا۔۔۔ اگر تم نے اپنی گندی نظر میری بیوی پر ایک بار بھی اٹھائی تو !!! مجتبٰی کا غصے سے بُرا حال تھا۔۔ ہادی نے اپنے گارڈ کو مجتبٰی کو پکڑنے کا اشارہ کیا ایک اشارے پر ہی مجتبٰی کو اُن ظالم انسانوں نے پکڑا تھا اور اسکو کرسی پر بیٹھا کر باندھ دیا گیا تھا۔۔۔ ذیشان یہ سب دیکھ رہا تھا۔۔ اور سمجھنے کی کوشش بھی کر رہا تھا۔۔۔ ہادی صاحب اپنی بے باک نظروں سے ایمان کو دیکھ رہا تھا اور دھیرے دھیرے اُسکی طرف قدم بھی بڑھا رہا تھا۔۔۔ ایمان بھی ڈرتے ڈرتے پیچھے کو قدم بڑھا رہی تھی۔۔۔ نہیں !!! "نہیں !!" ہادی کچھ تو خدا کا خوف کرو اللہ سے ڈرو ، مجتبٰی بار بار چلّا رہا تھا۔۔۔ لیکن ہادی پر تو شیطان سوار تھا کیسے وہ سن سکتا تھا۔۔۔ ذیشان نے اپنی ماں کو بچانے کے غرض سے ادھر اُدھر نظر دوڑائی تھی جب اُسکی نظر ایک بہت بھری دنڈے پر ٹھہر گئی تھی۔۔۔ اُس نے چُھپ کے سے وہ ڈنڈا اٹھایا اور آہستہ آہستہ اپنے قدم ہادی کی طرف بڑھانے لگا ۔۔۔ ہادی کا چہرا دوسری طرف تھا اس لیے اسکو پتہ نہیں چلا تھا۔۔ گارڈ بھی اپنی مستی مگن تھے۔۔۔ وہ بھی اسکو نہیں دیکھ سکے تھے۔۔ اُسنے ہادی کے پیچھے سے جیسے ہی ڈنڈا مارنا چاہا ہادی نے پیچھے کو اپنا ہاتھ کر کے وہ ڈنڈا پکڑا تھا۔۔۔ اور پھر پلٹا "بہت شیانے ہو مجھے پتہ تھا تُم کچھ ضرور کروگے، لے جاؤ اسکو بھی ایک حکم پر اُسکی بھی اُسکے باپ کے برابر میں باندھ دیا گیا تھا ۔۔۔۔ پھر جو ہادی نہیں نہیں اُس شیطان نے کیا تھا پورے محل میں ایمان کی چیخوں کی آواز گونج رہی تھی۔۔۔ ایک شوہر نے دوسرے بیٹے نے اپنی ماں کا وہ حال ہوتے دیکھا تھا۔۔۔ اُس درندے نے جو کیا تھا اسکی ماں کے ساتھ شیطان بھی کبھی ایسا نہ کرتا۔۔۔ اُسکی ماں وہیں مر گئی تھی اُسکے باپ کو ہارٹ اٹیک ہو گیا تھا اور وہ وہ بیہوش ہو گیا تھا۔۔ وہ بہت رو رہا تھا بے تحاشہ اُسکا ہر روم روم آنسوں بہ رہا تھا۔۔۔ اُسکا زخم پھر سے تازہ ہو گیا تھا۔۔۔ جس درد کو وہ اکیلے پچھلے انیس سالوں سے روز محسوس کرتا تھا جسکو بتانے کی اُس۔میں کسی کو ہمت نہیں تھی آج وہ ان بزرگ کے سامنے بتا رہا تھا۔۔۔" بابا میں نے یہ انیس سال کیسے کاٹے ہے صرف میں جانتا ہوں اتنی خوفناک موت میں نے بھی آج تک کسی کو نہیں دی اتنے ظلم کیے میں نے لیکن کبھی کبھی کسی عورت کو دکھ دینے کا سوچا بھی نہیں میری نظروں میں ہر مرد شیطان لگنے لگا تھا۔۔۔ میں جب بھی کسی عورت پر ظلم ہوتے دیکھتا مجھے اپنی ماں کا عکس نظر آنے لگتا میرا انسانیت دوستی ہر رشتے سے یقین آٹھ گیا تھا۔۔۔ یہاں تک کہ میں وہ بولتے ہوئے رونے لگا، میرا یقین اللہ پر سے بھی ختم ہو گیا تھا۔۔ مجھے لگنے لگا تھا کہ صرف میں ہی تو ہوں جو اپنی ماں باپ کے اُس حال کا بدلہ لے سکتا ہوں۔۔ وہ بزرگ بہت خاموشی سے اُسکی بات سن رہے تھے۔۔۔ وہ اپنی بات بول کر خاموشی سے اپنے آنسوں بہتا رہا۔۔۔ اُن بزرگ نے اتنے دیر میں صرف یہ پوچھا تھا۔۔۔ " بیٹا آپکی بہن کہاں ہے..؟؟ اُس نے اُنکی پُرنور چہرے کے طرف دیکھا اور پھر آنسوؤں کو پوچھتے ہوئے بولا۔۔
"بابا میں تین دن بعد ہوش میں آیا تھا ۔۔ ایک بی امّاں کے گھر پر تھا میں مجھے وہاں کون لایا تھا مجھے نہیں پتہ ، بی امّاں کہتی ہے کہ میں روڈ پر پڑا ہوا ملا تھا ۔۔۔ اور میری بہن کا آج تک کُچّھ نہیں معلوم نہیں " میں ہر روز اُسكو ڈھونڈتا ہوں لیکن وہ نہیں ملی پتہ نہیں اُس درنڈے نے میری بہن کے ساتھ کیا کیا ہوگا۔۔ وہ آنسوں کو پوچھتے ہوئے بولا۔۔ اُن بابا کی آنکھوں میں بھی اُسکی داستان کو سن کر آنسوں آ گئے تھے۔۔۔
بابا میں بہت گناہ گار ہوں پتہ نہیں اللّٰہ مجھے معاف بھی کرے گے یا نہیں " میں اللّٰہ کی ہر سزا کو منظور کرتا ہوں لیکن " لیکن بابا بس اللّٰہ سے آپ بولے نہ اُس لڑکی کو ٹھیک کر دیں وہ لڑکی جس کی وجہ سے میں یہاں پر اُسکے گھر میں بیٹھا ہوں اُن سے بولے نہ کہ وہ میری دوست کو اور اُسکے بچے کو سلامتی سے ٹھیک کر دیں۔۔۔ وہ اب دعا کے لیے بابا سے بول رہا تھا ۔۔ اور بابا نے اسکو کندھوں سے تھام کر اُسکے سر پر ہاتھ پھیرا تھا اور پھر بولے تھے۔۔۔۔۔ 
"بیٹا آپ لاکھ برے صحیح لیکن اللّٰہ سے اگر آپ اپنی غلطی کی معافی مانگو گے تو وہ معاف کر دے گا وہ اپنے بندے سے جب کچھ چھینتا ہے تو صرف اس لیے کہ اُسکا بندہ وقت کے رہتے سیدھے راستے پر آ جائے۔۔۔ میں جانتا ہوں جو آپکے ساتھ ہوا وہ بہت بھیانک تھا لیکن بیٹا ہر کام میں اللّٰہ کی مسلحات ہوتی ہے ۔۔۔ 
"ایک بات بولوں بیٹا تُم اس بدلے کو یہیں پر ختم کر دو اپنا ہر معاملہ اللّٰہ کے سپرد کر دو کیونکہ وہ بہت اعلیٰ فیصلہ کرتا ہے۔۔
اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ
۝مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ
بدلے کے دن ( یعنی قیامت کا مالک) ہے۔۔
اب اللّٰہ ہے حق کے دن کا مالک۔ اللّٰہ نے دنیا میں اقتدار تقسیم کیا ہے کسی کو زیادہ تو کسی کو کم کسی سے لیکر تو کسی کو دے کر۔ اور ہر شخص اپنا اقتدار استعمال کر کے اچھے برے اعمال کرتا ہے۔ 
اللہ نے تمہیں دین دیا ہے لیکن ایک عمر ہم نے دین کو بھلا کر بدلے کی آگ میں گزار دی پتہ نہیں اب کتنی زندگی بچی جب ہم اللہ کی یاد آئی بیٹا اب جو زندگی ہے نہ اسکو اللّٰہ کی عبادت میں صرف کرو اور اللہ کے سپرد چھوڑ دو اپنا معاملہ۔۔۔ دیکھنا وہ بہتر فیصلہ کرے گا انشاءاللہ !!! کیونکہ وہ ہم کو ہم سے بہتر جانتا ہے۔۔۔ رہی دعا کی بات اور معافی کی تو اگر سچے دل سے اللّٰہ سے اپنے معافی مانگی ہوگی تو وہ ضرور معاف کرے گا۔۔ وہ بہت رحم کرنے والا ہے۔۔۔ انشاءاللہ آپکی دعا بھی قبول ہوگی۔۔۔ جاؤ اب آپکی دوست کو آپکی ضرورت ہے۔۔۔ بابا نے سمجھاتے ہوئے اسکو آخر میں جانے کا کہا اور وہ گردن ہاں میں ہلاتا وہاں سے اٹھ کر ہاسپٹل جانے کے لیے اٹھ گیا تھا۔۔۔
********************
So hare.... 
Vote comments share 😅😅😅
Plzzz silent ho kr mt gujr jaya krein.... 
Support me.....
Mujhe aap logo se poochna hai kya is novel ka second part aana chahiye ya rehne doon🤔🤔🤔🤔 comments mein apni raye zaroor dena intezaar rahe ga aapka 👍😊


   1
0 Comments